Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Par 5

٭پانچواں باب
وہ ن بھی اس کےلیےبیساکھی سےکم نہ تھا۔ جو خوشی ایک کو بیساکھی کےدن محسوس ہوتی ہےاسےاسی دن محسوس ہورہی تھی۔ مدھو اس کےگھر آئی تھی اور اس کےناشتہ کےلیےکھمن بناکر لائی تھی۔ ایک گجراتی کھانا تھا جو عام طور پر ناشتہ میں کھایا جاتا تھا۔ اس سےقبل اس نےوہ نہیں کھایا تھا ۔کھانا بڑا لذیذ تھا۔ اس پر چٹنیوں کی آمیزش اس کےذائقہ کو دوبالا کردیتی تھی۔ جاتےہوئےاس سےکہہ گئی کےآج اس کےکالج میں دو ہی پیریڈ ہےاگر وہ چاہےتو شہر آسکتا ہی۔ اس نےفوراً حامی بھرلی اور کہہ دیا اس وقت وہ کالج کےگیٹ کےباہر انتظار کرےگا ۔مدھو بس میں بیٹھ کر چلی گئی۔ لیکن اس کےدل کو چین نہیں تھا۔ دو گھنٹےبعد ہی ملنےکا وعدہ تھا۔ اس لیےاس کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ رگھو اور راجو آئےتو اس نےان سےکہہ دیا وہ ایک کام سےشہر جارہا ہے۔ شام کو آئےگا وہ دوکان دیکھ لی۔ اور فوراً سامنےکھڑی بس میں بیٹھ کر شہر کو چل دیا۔ آدھہ گھنٹےمیں وہ شہر میں تھا۔ اور ابھی پورےایک گھنٹےاسےمدھو کا انتظار کرنا تھا۔ شہر اس کےلیےنیا تھا۔ کوئی سناشا بھی نہیں تھا جس کےپاس جاکر وقت گذارا جائے۔ مدھو نےکالج کا پتہ بتا دیا تھا۔ بس اسٹاف سےتھوڑی دیر پیدل چلنےکےبعد مدھو کا کالج آجاتا تھا۔ وہ کالج پر پہنچ کر کالج کےگیٹ کےباہر مدھو کا انتظار کرنےلگا۔ آتےجاتےلوگ اسےبڑی عجیب نظروں دیکھتےاور آگےبڑھ جاتےتھی۔پہلےاس کی سمجھ میں ان لوگوں کی نظروں کا مطلب نہیں آیا پھر وہ خود اپنےآپ پر نظر پڑی۔ اس کی حالت شہر میں ہاتھی کی سی ہے۔ جس طرح اگر ہاتھی شہر میں آجائی تو شہر والوں کےلیےوہ عجوبہ ہوتا ہےوہ بھی شہر والواں کےلیےعجوبہ تھا۔ اس وقت شہر میں شاید اکلوتا سکھ تھا۔ اس لیےلوگ اسےحیرت سےدیکھ رہےتھے۔اسےلگا اسےاپنی شناخت چھپانا سب سےمشکل کام ہی۔ وہ لاکھوں میں پہچانا جاتا سکتا ہی۔ اور کوئی بھی اسےجاننےدور ہی سےاسےدیکھ کر کہہ سکتا ہے”یہ جسمیندر سنگھ عرف جمی ہی۔ نوٹیا گاو
¿ں کی۔ گرونانک اسپیئر پارٹس کا مالک ۔ “ اور آج اس نےمدھو کےساتھ شہر کی سےکرنےکا منصوبہ بنایا ہی۔ مدھو کو شہر میں شاید ہی پہچانی جائی۔لیکن اسےپہچان لینا آسان سا کام ہی۔ پھر اگر کسی سردار کےساتھ کوئی لڑکی ہوتو وہ لوگ ہر کسی کی توج کا مرکز بن سکتےہیں۔ خصوصی طور پر اگر وہ لڑکی گجراتی ہوتو ۔پھر اس نےاپنا سر جھٹک دیا ۔اب ان باتوں سےکیا ڈرنا۔جب پیا ر کیا تو ڈرنا کیا ۔ جو ہوگا دیکھا جائےگا۔وقت مقرر پر مدھو باہر آگئی ۔وہ مدھو کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سےایک رکشا میں بیٹھ گیا اور رکشا والےسےچلنےکےلیےکہا۔ اگر کالج کا کوئی لڑکا لڑکی مدھو کو اس کےساتھ دیکھ لیتا تو سارےکالج میں فسانہ بن جاتا مدھو ایک سردار جی کےساتھ کہیں گئی ہے۔کالج سےدور پہنچ کر وہ رکشا سےاترے۔اور انھوں نےشہر کی سیر شروع کی ۔مدھو شہر کی ایک ایک چیز کےبارےمیں اسےبتانےلگی دوپہر کا کھانا انھوں ایک اچھی ہوٹل میں کھایا ۔ کھانا کھاتےہوئےوہ مدھو سےپوچھ بیٹھا۔ ”یہ مہندرپٹیل کون ہی؟ “”مہندر “ اس کا نام سن کر مدھو نےاپنےہونٹ بھینچے۔”تم نےاس کا نام کیوںلیا ۔میں اس کا نام کو سننا بھی پسند کرتی ہوں ۔ “”موینی پتہ تو چلےکہ وہ کون سی ہستی ہی۔ “”ایک غنڈہ ،موالی ہی۔ مجھ سےعشق کرتا ہی۔“”اور تم؟“ اس نےمدھو کی آنکھوں میں دیکھا۔”میں اس کےمنہ پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی۔“”وجہ؟“”کہہ دیا نہ وہ ایک غنڈہ بدمعاش ہےمجھےذرا بھی پسند نہیں ۔میری برادری کا ہےتو کیا ہوا وہ مجھےاپنی جاگیر سمجھتا ہی۔ مجھےرشتہ بھی لگایا تھا میرےگھر والےواضی ہوگئےتھےمگر میں نےصاف کہہ دیا کہ مہندر سےشادی کرنےکےبجائےمیں کنواری رہنا پسند کروں گی ۔اس پر اس نےچیلنج کیا کہ ایک دن وہ مجھےشادی کےلیےراضی کرلےگا ۔تب سےآئےدن آکر مجھ پر اپنا حق جتاتا رہتا ہی۔ “”ہوں“ مہندر کی کہانی سن کر اس نےایک ٹھنڈی سانس لی۔ تووہ میرا رقیب ہی۔ ”رقیب ؟ “مدھو ہنس پڑی ”وہ کس طرح ؟“”وہ تمہیں پیار کرتا ہےاور میں بھی تمہیں پیار کرتا ہوں۔“”وہ کیا مجھےپیار کرےگا ۔میرےجسم کو پانا چاہتا ہی۔ ایک بار اگر اس نےمیرا جسم پالیا تو میری طر ف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھےگا ۔کسی دوسری لڑکی پر ڈورےڈالنےلگےگا ۔ اس لیےمیں اس سےشادی کرنا نہیں چاہتی۔ لیکن تم کب سےمجھ سےپیار کرنےلگے؟ “”جب پہلی بار دیکھا تھا۔“”کیا پہلی بار دیکھنےسےہی پیار ہوجاتا ہی۔ “”سچا پیار تو پہلی نظرسےہی شروع ہوجاتا ہی۔“”اچھا ....اور پیار .... “وہ اس کی آنکھوں میں جھانکنےلگی ۔”یہ پیار کیا ہوتا ہی؟“”یہ ایسا جذبہ ہےجو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا “وہ بولا۔”لیکن اس پیار کی کوئی تو نشانی توہوگی۔“”اس وقت ہم آمنےسامنےبیٹھےایک دوسرےکی آنکھوں میں دیکھ کر خوش ہورہےہیں۔ ایک روحانی مسرت حاصل کررہےہیں یہ بھی پیار کی ایک نشانی ہی۔“وہ بولا ۔اس کی بات سن کر مدھو کےچہرےپر سرخی چھاگئی ۔ ”کیا تم مجھےاسی طرح پیار کرتےرہو گی۔ “”ہاں اسی طرح ۔اور تم ؟“”میں بھی تمہیں اس طرح پیار کرتی رہوں گی۔“”تو اس کا مطلب ہےتم بھی مجھ سےپیار کرتی ہو۔“”کیوں تمہیں کوئی شک ہی؟ مدھو کےچہرےپر غصےکےتاثرات ابھرے۔مہندر جیسےکئی لڑکےمیرےپیچھےپڑےہیں لیکن میں کسی کو گھاس نہیں ڈالتی۔ بس تم پر دل آگیا جب تمہیں دیکھا تو تم دل میں اتر گئی۔ آتےجاتےدیکھتی رہی۔ اورمیری روح میں اتر گئے۔ “”اوےبلےبلے“وہ خوشی سےناچنےلگی۔”ارےیہ کیا تماشہ ہی۔ یہ ہوٹل ہےگھر نہیں ۔“مدھو نےاسےپیار سےڈانتا تو اس نےخود پرقابو کیا۔ ”ساری ساری“یہ کہہ کر وہ چور نظروں سےچاروں طرف دیکھنےلگا۔ سچ مچ ہر کسی کی نگاہ اس پر مرکوز تھی۔ اس لیےزیادہ دیر تک وہاں بیٹھنا انھوں نےمناسب نہیں سمجھا۔اس نےہوٹل کا بل ادا کیا اور جلدی سےہوٹل کےویٹر آگئی۔ اس کےبعد دوبارہ ان کی تفریح شروع ہوگئی جو شام پانچ بجےتک جاری رہی۔شام پانچ بجےکی بس سےوہ واپس گاو
¿ں آگئی۔ مدھو اپنےگھر چلی گئی ۔وہ آکر دوکان پر بیٹھ گیا ۔”رگھو سب ٹھیک تو ہی؟ “اس نےرگھو سےپوچھا۔ ”سب ٹھیک ہےسیٹھ۔ مہندر اور سیف ہوٹل والےکی خوب مار پیٹ ہوئی۔ ”مار پیٹ ہوئی ؟کیوں؟“”ارےو ہ تو کئی دنوں سےلگ رہا تھا کہ دونوں میں جم کر مار پیٹ ہوگی۔ جب سےسیف ہوٹل کھلی ہی۔ آس پاس کا تمام چھوٹےبڑےہوٹلوں کا دھندہ ختم ہوگیا ہی۔ سیف ہوٹل میں کولڈ ڈرنک، جوس ،ٹھنڈا وغیرہ بہت عمدہ اور سستےداموں میں ملتا ہےاس لیےہر کوئی اسی ہوٹل میں جاتا ہی۔ یہ بات تمام ہوٹل والاوں کی نظر میں کھٹک رہی تھی ۔مہندر کی بھی ایک ہوٹل ہے۔ وہ تو بالکل ہوگئی تھی۔ اس لیےمہندر اور زیادہ کھائےبیٹھا تھا۔موقع کی تاک میں تھا کب اسےموقع ملےاور وہ سیف ہوٹل کےخلاف کوئی کاروائی کری۔ آج پوری تیاری سےسافٹ ڈرنک پینےکےلیےوہ سیف ہوٹل کیں لیا ۔ سافٹ ڈرنک پی ک بل کےلیےاس نےویٹر سےجھگڑا کیا اور اس کےمنہ میں مار دیا۔ ہوٹل کےمالک سیف الدین نےاسےویٹر پر ہاتھ اٹھانےسےروکا تووہ سیف الدین پر ٹوٹ پڑا ۔سیف الدین مظبوط آدم ہےاس نےجم کر مہندر کی پٹائی کردی۔اس پر مہندرکےآدمی ہوٹل میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنےلگے۔جواب میں ہوٹل کےویٹروں نےان کی پٹائی کردی ۔ سیف الدین نےمہندر کو اتنا مارا کےبڑی مشکل سےجان بچا کر وہ بھاگا اور پولیس تھانےپہنچا ۔ پولیس آئی اور سیف الدین اور اس کےساتھیوں کو پکڑ کر لےگئی۔ ہوٹل بند ہی۔ اور ابھی تک پولیس اسٹیشن میں ہنگامہ چل رہاہی۔دونوں طرف کےلیڈر معاملےکو سمجھانےکی کوشش کررہےہیں۔ لیکن مہندر معاملہ بڑھارہاہی۔ “رگھو کی بات سن وہ سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ سوچ کر اس نےجاوید کو فون لگایا۔ ”جاوید بھائی میں ذرا شہر گیا تھا ۔سنا ہےگاو
¿ں میں کوئی ہنگامہ ہوا ہی۔ “”ہاں مہندر نےہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ ہوٹل میں توڑ پھوڑ ،مار پیٹ ہوئی ہی۔ معاملہ پولیس اسٹیشن میں ہےدیکھیں کیا ہوتا ہی۔ “جاوید نےجواب دیا۔”کوئی گڑ بڑ تو نہیں ۔“”گڑبڑ تو نہیں ہےلیکن معاملہ مہندر کا ہے۔وہ معاملےکو کیا رنگ دےگا اس بارےمیں کہا نہیں جاسکتا ہی۔“جاوید بولا۔ ”ویسےگاو
¿ں والوں کو اس معاملےمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کاروباری دشمنی ہی۔“جاوید کی بات سن کر وہ سوچ میں ڈوب گیا۔ اسےلگا گاو
¿ں میں ایک الاو
¿ جل رہاہےاور مہندر جیسےلوگ اس الاو
¿ کو جلانےکےلیےنفرت ،دشمنی ،فرقہ پرستی کی لکڑیاں لالا کر ڈال رہےہیں۔ تاکہ الاو
¿ کی آگ اور تیزی سےبھڑکی۔ دوسرےدن معاملہ نےایسی نوعیت اختیار کرلی جس کےبارےمیں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ مہندر کا تعلق جس پارٹی سےتھا اس پارٹی نےاپنےلیڈر پر ہوئےشرمناک قاتلانہ حملےکےخلاف گاو
¿ں کا کاروبار بند رکھےکی اپیل کی تھی۔ سویرےسےہی پارٹی کےورکر آکر دوکانیں بند کرارہےتھی۔ اس نےجب دوکان کھولی تو وہ ورکر اس کےپاس بھی آئے۔”سردارجی دوکان بند کیجیی“ ”کیوں بھائی “”ہمارےلیڈر مہندر پٹیل پر ایک غنڈے،پاکستانی ایجنٹ گینگ کےسرغنہ سیف الدین نےحملہ کیاہے، اسےبڑی طرح زخمی کیاہی۔ اس غنڈہ گردی کےخلاف احتجاج کرنےکےلیےہم نےیہ بند رکھا ہی۔ ہمارامطالبہ ہےسیف الدین اور اس کےساتھیوں کو پوٹا کےتحت گرفتار کیا جالئے۔ اس کےہوٹل کو جوائم پیشہ افراد کا اڈا ہےاسےبند کیا جائے۔سیف الدین کا تعلق پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی سےہی۔ اس کی جانچ کی جائےاور گاو
¿ں میں اس سےتعلق رکھنےوالےدوسرےلوگوں کو بھی بےنقاب کیا جائے۔ “ان کی باتیں سن کر اس نےاپنا سر پکڑ لیا۔ ”ہر کوئی جانتا تھا معاملہ کیا ہی۔ کتنی نوعیت کا ہےلیکن اس کو ایسا رنگ دیا جائےگا کوئی اس کے۔بارےمیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ “رگھو نےاسےمشورہ دیا۔ ”سیٹھ جی ....دوکان بند رکھی جائےتو بہتر ہے۔مہندر نےغنڈےپال رکھےہیں۔ دوکان کھلی رکھنےپر ہوسکتا ہےوہ کوئی گڑ بڑ کری۔ “اس نےدوکان بند کردی ۔معاملہ کا جائزہ لینےکےلیےچوک کی طرف آیا تو اسےسارا ماحول بدلا ہوا دکھائی دیا۔ ایک بھی دوکان چالو نہیں تھی۔ سڑکوں پر سناٹا تھا جگہ جگہ مہندر بھائی پٹیل پر ہونےہوئےشرمناک قاتلانہ حملےکےخلاف بورڈ لگےتھی۔ اور بند کا نعرہ لکھا تھا۔ اخبارات آگئےتھی۔ اخبارات نےاس خبر کو نمایاں انداز میں چھاپا تھا۔ اخباروں میں لکھا تھا سیف الدین ایک غنڈہ ہی۔ کئی طرح کےغیر قانونی دھندوں اورجرائم میں ملوث ہے۔ لیکن اس کا رسوخ اتنا ہےکہ آج تک پولیس اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکی۔اس کا تعلق پاکستانی خفیہ ایجنسی سےہے۔ جس سےوہ ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی ملوث ہی۔ پولیس ایسےگناہ گار کےخلاف کاروائی نہیں کررہی ہی۔ گاو
¿ں والےتو سب جانتےتھےکہ حقیقت کیا ہےلیکن اخبارات کی اس طرح کی خبروں کا اثر پورےعلاقےپر پڑا ۔ اس طرح کی خبریں پڑھ کےآس پاس کےلوگ سوچنےلگےکہ ضرور نوٹیا میں کوئی بڑا واقعہ ہوا ہی۔ ریاست کےاہم لیڈران گاو
¿ں آئےاور وہ بھی مہندر کی حمایت میں آواز اٹھانےلگی۔ رات کا معاملہ ختم ہوگیا تھا ۔ پولیس نےمار پیٹ کا کیس مہندر اور سیف دونوں کےآدمیوں کو ضمانت پر چھوڑ دیا تھا۔ لیکن معاملہ ایسا رخ اختیار کرےگا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ جاوید کمپیوٹر اسنٹی ٹیوٹ کےپاس آیا تو جاوید اور بند کرانےوالوں میں حجت چل رہی تھی۔”دیکھیے....آپ کا احتجاج اپنی جگہ پر ہے۔لیکن اس اسنٹی ٹیوٹ کو بند کراکر آپ کوکیا ملےگا یہاں بچےتعلیم حاصل کرتےہیں۔ ایک دن بند سےان کی تعلیم کا نقصان ہوگا ۔“”ارےبڑا آیا تعلیم کےنقصان پر ماتم کرنےوالا ۔ بند کرتا ہےیا پتھر بازی شروع کریں۔ لگتا ہےیہ بھی سیف الدین کا ساتھی ہی۔ اس سالےکا نام بھی آ ئی ایس آئی کےایجنٹوں میں ڈالو۔ “اب معاملےکی نزاکت کو جاوید سمجھ گیا۔ نہ چاہتےہوئےبھی اس نےکہہ دیا۔”ٹھیک ہےمیں آج انسٹی ٹیوٹ بند رکھتا ہوں۔ “”جےشری رام ۔جےبجرنگ بلی “ کےنعرےلگاتےوہ لوگ آگےبڑھ گئی۔ ”جاوید بھائی یہ کیا تماشہ ہے۔ “وہ جاوید سےبولا ۔”سردارجی ....کبھی آپ کےپنجاب میں جو کچھ ہوتا تھا آج سارےگجرات میں ہورہا ہی۔ کبھی پورےپنجاب پر دہشت گردوں کا سکہ چلتا تھا ۔ آج سارےگجرات پر فرقہ پرستوں کا سکہ چلتا ہی۔ کیونکہ حکومت ان کی ہے،پولیس ان کی ہی، میڈیا ان کی ہی۔ وہ چاہےتو جھوٹ کاسچ اور سچ کا جھوٹ قرار دےدیتےہیں۔ اب سیف بھائی کا معاملہ لےلو ۔ سارا گاو
¿ں اسےجانتا ہی۔ سیدھا سادھا آدمی ہی۔ اس کا کسی سےکوئی لینا دینا نہیں ہی۔ لیکن کاروباری رقابت نےاسےگینگ اسٹار ،ملک دشمنی سرگرمیوں میں ملوث ،غنڈہ قرار دےدیا ہی۔ کون اس کی بےگناہی کی گواہی دینےجائےگا۔دوسرےشہروں میں کئی بڑےبڑےلیڈر آگئے۔ ایک بڑا سا جلوس نکالا گیا جس میں مسلمانوں کےخلاف ،سیف الدین کےخلاف اور پولیس کےخلاف نعرےلگائےگئی۔ اور پولیس سےمطالبہ کیا گیا کہ فوراً سیف الدین کو پوٹا کےتحت گرفتار کیا جائی۔ “”ایک بڑا سا جلسہ ہوا ۔ جس میں مسلمانوں کےخلاف خوب زہر اگلا گیا ۔انھیں ملک کا دشمن قرار دیا گیا ۔ان کو اس ملک سےملک بدر کرنےکا عزم کیا گیا اعلان کیاگیا کہ مسلمانوں کا بائیکاٹ کیا جائی۔ ان کےساتھ وئی بھی کاروباری تعلق نہ رکھا جائے۔ان کی دوکانوںسےنہ سامان خریدا جائےاور نہ انھیں سامان دیاجائی۔ ان کو نہ نوکریاں دی جائےاور نہ وہ لوگ دھرنا دےکر سڑک پر بیٹھ گئی۔ اور راستہ روک دیا۔ پولیس کےاعلیٰ افسران بھی آگئی۔ انھوں نےسمجھایا” پولیس نےمعاملہ درج کرلیا ہی۔ تحقیقات کی جارہی ہی۔ گناہ گار کےساتھ سختی سےنپٹا جائےگا اور اس کیخلاف سخت کاروائی کی جائےگی۔ آپ ماحول خواب نہ کریں۔ معاملےاور نہ بگاڑیں۔اس کی آنچ آس پاس کےگاو
¿ں میں بھی پھیل سکتی ہی۔ “لیکن کوئی سننےکوتیار نہیں تھا۔ مجبوراً پولیس کمشنر نےحکم دیا کہ سیف الدین اور اس تمام ساتھیوں کو گرفتار کرلیا جائی۔ ہوٹل بند کردی گئی اور اس پر سیل لگادیا گیا۔ پولیس کی اس کاروائی پر جلوس نےفاتحانہ نعرےلگائےاور خوشیاں منائی ۔”ہم سےجوٹکرائےگا مٹی میں مل جائےگا“ ”پاکستان پہنچا دیں گے،قبرستان پہنچادیں گی“”مہندر بھائی آگےبڑھو ....ہم تمہار ےساتھ ہیں“”جےشری رام ....جےبجرنگ بلی ....جےبھوانی “شام ہونےسےقبل سارا تماشہ ختم ہوگیا۔ دھیرےدھیرےدوکانیں کھلنےلگیں۔ اور زندگی معمول پر آنےلگیں۔ لوگ جو خوف سےاپنےگھروں میں دبک کر بیٹھ گئےتھے۔گھر کےباہر آنےلگےاور سڑکوں پر زندگی کےآثار نمایاں ہوگئی۔ لوگ جگہ جگہ بھیڑ کی شکل میں جمع ہوتےاور دن بھر کےواقعات پر گفتگو کرنےلگتی۔ اسےحیرت اس بات پر تھی کہ سیف الدین کو گاو
¿ں کےبچہ بچہ جانتا تھا۔ وہ اسی گاو
¿ں میں پلا تھا۔ اس کی شرافت ،ایمانداری اور بھائی چارگی کی مثال سارا گاو
¿ں دیتا تھا۔ لیکن وہی گاو
¿ں والےاسی سیف الدین کی بارےمیں طرح طرح کی باتیں کررہےتھی۔ ”سیف الدین تو بڑا غنڈہ نکلا“ ”ارےصرف غنڈہ نہیں ملک دشمن بھی “”وہ پاکستان کا ایجنٹ ہوگا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔“”کسی بھی مسلمان پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا پر مسلمان پاکستان کا ایجنٹ ہے۔انڈیا کا دشمن ....ملک کا غدار “ ”اچھا ہوا مہندر بھائی نےاسےپکڑوادیا۔ ورنا کسی دن ہمارےپورےگاو
¿ں کو اڑا دیتا ۔“”مہندر بھائی کی پہنچ بہت ہی۔ وہ تو کہتا ہےکہ اس گاو
¿ں میں اور بھی پاکستانی کےایجنٹ ہیں۔“وہ یہ باتیں سنتا تو اس کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگتا ۔اسےلگ رہا تھا ....الاو
¿ روشنی کےلیےکیا پھر تاپنےکےلیےجلایا جاتا ہی۔ لیکن اس گاو
¿ں میں جو الاو
¿جلایا جایا رہا ہےاور اس میں جس طرح کی نفرت زہر بھری لکڑیوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ایسا لگتا ہےسارےگاو
¿ں کو اس میں بھسم کرنےکےلیےاس الاو
¿ کو جلایا جارہا ہی۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477











 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel By M.Mubin Par 5 and Powered by Blogger.